پیش لفظ
خلفائے راشدین کی فتوحات کا ذکر آتا ہے تو بات یہیں پر ختم کردی جاتی ہے کہ ان
اولین مجاہدین اسلام نے قیصروکسری کا نام ونشان مٹا دیا تھا.... اس میں ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ قیصر روم اور کسری ایران کی جنگی طاقتیں اس دور کی ہیبت ناک طاقتیں تھیں۔ آج کے تاریخ نویس اور مبصِّر کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو شکست دینا تو دور کی بات ہے کوئی بادشاہی اسے للکارنے کی بھی جرأت نہیں کر سکتی تھی۔ افواج کی افراط کے علاوہ یہ دونوں قومیں جنگی تھیں۔ ان کی فتوحات اور شجاعت کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
آخر ایک قوم اٹھی جسے ایرانیوں اور رومیوں نے عرب کے بدّو کہا اور اس قوم کے
خلاف نفرت و حقارت کا اظہار کیا۔ یہ تھی امَّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس کے مٹھی بھر مجاہدین نے کسری ایران کی دہشت ناک جنگی طاقت کے پرخچے اڑادیئے۔
پران رومیوں کو جن کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی عرب کی سرزمین (فلسطین اور شام)
سے بھگایا اور ان کی سلطنت کو بحیرۂ روم کے پار تھوڑے سے علاقے میں محدود کر دیا۔
عموما بات یہیں پر ختم کردی جاتی ہے اور مجاہدین کی ایک معجزه نما فتح کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ ہے فتحِ مصر۔ مصر میں ہی اللہ کے شیروں نے رومیوں کو فیصلہ کن شکست
دی تھی اور قیصر روم ہرقل کو جو ذاتی شجاعت، جنگی قیادت اور فطری فرعونیت کے لحاظ سے دہشت کا ایک نام تھا اس حال تک پہنچا دیا گیا تھا کہ وہ بحیرہ روم کے اس پار بزنطيه میں جا بیٹھا اور وہاں سے مصر میں اپنی فوج کو احکام بھیجتارہا حتی کہ وہ انتہائی مایوسی کے عالم
میں انتقال کر گیا۔
ہرقل کو اس کی اپنی ملکہ نے شاہی طبیب کے ہاتھوں زہر دے کر مروایا تھا۔ اس
کتاب میں آپ کو یہ مکمل کہانی ملے گی جو سنسنی خیز اور پراسرار ڈرامہ ہے۔
مصر کی فتح سپہ سالار عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا کارنامہ ہے۔ تاریخ نویس، وقائع نگار اور مبصر آج بھی حیران ہیں کہ آٹھ دس ہزار مجاہدین نے ہرقل رومی کی اتنی طاقتور فوج کو جس کی
تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی کس طرح ہر میدان اور ہر قلعے میں شکست پر شکست دے کر مصر سے بھگا دیا تھا۔
اکثر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مصرکی فتح کو معجزے کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔ میں نے اس کتاب میں بہت سے مستند مؤرخوں کی تحریروں کے حوالے سے وہ واقعات اور وہ پس منظر پیش کیا ہے اور مجاہدین کے عزم، بے خوفی اور جذبے کی
تفصیلات بیان کی ہیں جو اس معجرے کا باعث بنیں۔
کہنے کو تو میری یہ کاوش - "...اور نیل بہتارہا" بھی ایک اسلامی تاریخی
ناول ہے اور اسے پڑھے بغیر ان ہی تاریخی ناولوں کے زمرے میں ڈال دیا جائے گا جو
ایک عرصے سے بے دریغ لکھے جارہے ہیں اور جذباتی قسم کے قارئین میں مقبول عام
ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ علم کی کمی ہے اس لئے لوگ یہ جان ہی نہیں سکتے کہ ان
تاریخی ناولوں میں تاریخ برائے نام ہے باقی سب ناول ہے۔ یعنی افسانہ۔
ایسے ناول لکھنے والوں نے ایک مجرمانہ حرکت یہ کی ہے کہ ناول کو دلچسپ، سنسنی خیز اور مقبول عام بنانے کے لئے تاریخ کو مسخ کر دیا ہے۔ ان ناول نگاروں کی دلچسپی صرف کہانی کے ساتھ ہوتی ہے جسے وہ جذباتی مکالموں اور خود ساختہ رومانی واقعات سے پراثر بناتے ہیں۔
اگر آپ نے میرے اسلامی تاریخی ناول "حجاز کی آندمی" "شمشیر بے نیام"
"دمشق کے قید خانے میں" "ستارہ جو ٹوٹ گیا" "اور ایک بت شکن پیدا ہوا" -
پڑھے ہیں تو آپ ....... اور نیل بہتا رہا کے متعلق یہی رائے قائم کریں گے کہ یہ صحیح
اور مستند تاریخ ہے جو ناول کے انداز سے لکھی گئی ہے۔
میں نے ہمیشہ یہ دعوی کیا ہے کہ میرے تاریخی ناول پڑھ کر تاریخ کے طلباء امتحان
میں پاس ہو سکتے ہیں۔ آپ کو مستند تاریخ بھی ملے گی اور ناقابل فراموش کہانی بھی۔”...
اور نیل بتا رہا میں تو آپ کو بہت ہی پراثر اور پراسرار کہانیاں ملیں گی جو تاریخ کے
دامن میں محفوظ ہیں۔ ان میں قیصر روم کی محلاتی سازشیں بھی ہیں اور لوگوں کی تو ہم پرستی بھی، فرعونوں کے کھنڈرات کے بھید بھی ہیں اور مجاہدین اسلام کے مجاتی
کارنامے بھی جو ایمان تازہ کر دیتے ہیں۔
کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے۔ خود بھی پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کو دیں۔
اگر اس میں کوئی خامی دیکھیں تو براہ کرم مجھے لکھیں۔ ممنون و مشکور ہوں گا۔
عنایت اللہ
مدیر ماہنامہ "حکایت" لاہور
0 تبصرے