اور نیل بہتا رہا قسط نمبر 1
مکرمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کے بہت بعد کا واقعہ ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زنده و سلامت تھے۔
مکہ اور مدینہ کے درمیان پھیلے ہوئے جلتے، جھلساتے ہوئے ریگزار میں ایک مسافر گھوڑے پر سوار مدینہ کی طرف جا رہا تھا۔ وہ اکیلا تھا۔ صرف گھوڑا ہی اس کا ہمسفر تھا جس پر وہ سوار تھا۔ اس زمانے میں کوئی مسافر اکیلے سفر نہیں کیا کرتا تھا۔ لوگ قافلوں کی صورت میں سفر کرتے تھے کچھ اس لئے کہ رہزنوں اور قزاقوں کا خطرہ ہر قدم پر موجود رہتا تھا اور زیادہ تر اس لئے کہ قافلوں کے ساتھ کٹھن مسافت بھی سہل لگتی تھی۔ ہر سہولت مل جاتی تھی۔ بیماری کی صورت میں ہمسفر ہر طرح دیکھ بھال کرتے تھے۔
پھر وه مسافر اکیلا کیوں جارہا تھا؟ کہاں جارہا تھا؟
اس کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا۔ وہ قافلے سے بچھڑا ہوا یا بھٹکا ہوا راہی لگتا تھا لیکن اس کے چہرے پر اور اس کے انداز میں ان تاثرات کا نام و نشان نہ تھاجو گم کردہ راہ مسافر کے ہوا کرتے تھے۔ سفر کی صعوبت کے آثار تو چہرے مہرے پر نمایاں تھے لیکن وہ مطمئن و مسرور تھا۔ کبھی کوئی من پند گیت گنگنانے لگتا اور کبھی گھوڑے سے یوں باتیں کرنے لگتا جیسے گھوڑااس کی بات سمجھ رہا ہو۔
اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا تھا۔ دو پڑاؤ کر چکا تھا۔ اس کے ساتھ کھانے کا جو سامان تھا اور اس کا جو لباس تھا اس سے پتہ چلنا تاکہ وہ تلاش روزگار میں مارا مارا پھرنے والا کوئی بدوّ نہیں اور وہ کوئی غریب سا عرب بھی نہیں۔ اشیائے خوردو نوش اور لباس سے ہی نہیں، چہرے کا جلال اور اس کا پروقار سراپا بتاتا تھا کہ اپنے قبیلے کا سرکرده فرد ہے۔
اس کے سفر کا ایک اور سورج غروب ہونے کو تھا۔ وہ اس وقت ریت اور مٹی والے اونچے نیچے ٹیلوں کی بھول بھلیوں میں سے گزر رہا تھا۔ اسے شاید معلوم تھا کہ قریب ہی چھوٹا سا ایک نخلستان ہے۔ وہ بڑے اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اسے اپنے آپ پر پورا پورا اعتماد ہو۔
وہ نخلستان تک پہنچ گیا۔ اس نے گھوڑے کو روکنا چاہا لیکن گھوڑے نے لگام کا اشاره نظرانداز کر دیا اور پانی پر جا کر رکا۔ گھوڑان بھر کا پیاسا تھا، بے تابی سے پانی پینے لگا۔ سوار گھوڑے سے اترا اور وہ تھیلا کھولا جس میں کھانے پینے کا سامان تھا۔
••••••••
صبح ابھی گہری دھندلی تھی جب وہ پھر گھوڑے پر سوار ہو چکا تھا۔ صحرا کی رات کی خنکی نے اسے اور اس کے گھوڑے کو ترو تازہ کر دیا تھا۔
سورج اوپر آگیا تھا جب وہ ٹیلوں ٹیکریوں کے علاقے سے نکل گیا تھا۔ یہ علاقہ پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ کچھ دور آگے ٹیکریاں تھیں۔ یہ بھی ریت اور مٹی کی تھیں۔ ان پر کہیں کہیں خشک جھاڑیاں تھیں....کچھ وقت گزرا وہ ان ٹیکریوں کے اندر جارہا تھا۔ ان میں سے گزرنے کے راستے صاف نظر آرہے تھے لیکن ان میں آکر وہ راہ رَو بھٹک جاتے ہیں جو صحرا کے بھید نہیں جانتے اور وہ ٹیکریوں کے اندر ہی چلتے چلتے تھک کر شل ہو جاتے ہیں۔ وہ فاصلہ تو بہت ساطے کر لیتے ہیں لیکن پہنچتے کہیں بھی نہیں۔
یہ سوار صحرا کا بھیدی معلوم ہوتا تھا۔ اسے جدھر سے راستہ ملتا تھا بے خوف و خطر گزرتا جاتا تھا۔ پھر ٹیکریاں کم ہونے لگیں اور بار بار دائیں بائیں مڑنے اور بھٹک جانے کا خطرہ ختم ہو گیا۔ کچھ آگے جا کر ریت اور مٹی کی یہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ایک دوسری سے اور زیادہ دور دور ہو گئیں۔
وہ آخری ٹیکری سے گھوم کر آگے گیا تو اس کے سامنے ریت کا سمندر افق تک چلا گیا تھا اور سورج سر پر آگیا تھا۔ ریت جل رہی تھی اور اس سے اٹھنے والے شعلے آگ جیسے نہیں بلکہ شیشے اور پینے کے پانی کی طرح شفاف تھے۔ ان سے پرے کی چیزیں ان میں سے اس طرح نظر آتی تھیں جس طرح شیشے میں سے نظر آیا کرتی ہیں لیکن جھلمل جھلمل کرتی نظر آتی ہیں۔
اس سوار کو بائیں طرف سے ہلکی ہلکی دھمک سنائی دینے لگی۔ اس نے اس طرف دیکھا۔ کوئی سوار آرہا تھا لیکن یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ شتر سوار ہے یا گھوڑ سوار، کیونکہ وہ جھلملا رہا تھا۔ دھمک سے شک ہوتا تھا کہ وہ گھوڑے پر سوار ہے۔ اونٹ بے آواز پا چلا کرتا ہے۔ تاہم ابھی اتنا ہی کہا جاسکتا تھا کہ کوئی سوار آرہا ہے۔
وہ رک گیا اور اس کا ایک ہاتھ اپنی تلوار کے دستے پر چلا گیا۔ آنے والا کوئی رہزن ہی ہو سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ لوگ لمبے سفر پر اکیلے نہیں نکلا کرتے۔ یہ اس جیسا کوئی مسافر نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے پاس کوئی دولت نہیں تھی زر و جواہرات نہیں تھے کہ اسے لٹ جانے کا خطرہ ہوتا۔ البتہ اس کا گھوڑا ایسی دولت تھی جس سے وہ دستبردار نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کی منزل نہ جانے ابھی کتنی دور تھی۔
••••••••
جوں جوں سوار کا عکس واضح ہوتا آ رہا تھا اس گھوڑ سوار کی تلوار آہستہ آہستہ نیام سے باہر آتی جارہی تھی۔ اس نے گھوڑا روک لیا تھا۔ وہ آنے والے سوار کو ایسا موقع نہیں دینا چاہتا تھا کہ وہ اس پر اچانک وار کر دے یا عقب سے حملہ کر دے۔
ریت کے شفاف شعلوں میں سے آنے والا قریب آگیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ چہرے کو تپش سے بچانے کے لئے اس نے سر اور چہرے پر کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ آنکھیں ذرا ذرا سی نظر آرہی تھیں۔ ایسے ہی اس کے انتظار میں رکے کھڑے سوار نے بھی اپنا چہرہ چادر میں چھپا رکھا تھا۔
اِس سوار نے اُس سوار کے سامنے آ کر گھوڑا روک لیا اور کچھ دیر دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
کیا ہمیں ایک دوسرے کے لئے اجنبی رہنا چاہے؟ آنے والے سوار نے پوچھا ”اکیلے سفرپر کیوں نکلے ہو؟"
”اور تم اکیلے کیوں نکلے؟ اس سوار نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ . کہاں جارہے ہو؟"
تمہاری آواز جانی پہچانی سی لگتی ہے آنے والے سوار نے کہا۔
"کچھ ایسا میں نے بھی تمہاری آواز میں محسوس کیا ہے؟" اس سوار نے کہا - آؤ ہم ایک دوسرے کو پہچان لیں۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا چہرہ بے نقاب کر دیا۔
خدا کی قسم ابن ولید!
دوسرے سوار نے اپنا چہرہ بے نقاب کر کے گھوڑے سے کود کر اترتے ہوئے کہا ”میں نے ٹھیک پہچانا تھا.... یہ آواز میرے یار خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ہے۔
"عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ! - خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے گھوڑے سے اتر کر حیرت سے کہا۔ کیا تو حبشہ نجاشی کے پاس نہیں چلا گیا تھا؟
دونوں بغلگیر ہو گئے اور کچھ دیر ایک دوسرے کو بازووں میں جکڑے رکھا۔
0 تبصرے