اور نیل بہتا رہا۔ قسط نمبر 2
یہ تھیں تاریخ اسلام کی دو شخصیتیں..... خالد بن ولید جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کا خطاب عطا فرمایا تھا اور دوسرے تھے عمرو بن عاص جنہوں نے فاتح مصر کا اعزاز حاصل کیا۔ دونوں نے قیصر روم کو فیصلہ کن شکست دے کر اس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔ قیصر روم کی جنگی طاقت دہشت کا دوسرا نام تھا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس ہیبت ناک طاقت کو کوئی شکست دے سکتا ہے۔
ہرقل جو طاقت کا دیو کہلاتا تھا۔ اسلام کے ان تاریخ ساز سالاروں کے آگے آگے بھاگا پھر رہا تھا۔ جنگ یرموک آخری معرکہ تھا جس میں ہرقل کو فیصلہ کن شکست ہوئی
تھی۔ اب اسے کہیں پناہ نہیں مل رہی تھی۔ پناہ ملی تو مصر میں ملی لیکن عمرو بن عاص وہاں بھی جا پہنچے۔
ان دونوں عظیم سالاروں کی یہ فتوحات ایمان کی قوت، جذبۂ جہاد اور شجاعت کی الگ الگ داستانیں ہیں.... ایمان افروز ولولہ انگیز.... خالد بن ولید کی داستان فتوحات و شجاعت ہم پہلے سنا چکے ہیں۔ (دیکھئے کتبہ داستان کی کتاب "شمشیر بے نیام")۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں نامور سالار وہاں کیا کر رہے تھے جہاں لق و دق صحرا تھا اور زندگی کا نام و نشان نہ تھا؟
وہ بہت پہلے کی بات ہے جب ان کی وہاں اتفاقیہ ملاقات ہو گئی تھی۔ اس وقت دونوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ دونوں مکہ کے قریش میں سے تھے۔ دونوں کی معاشرتی اور معاشی حیثیت اہل قریش میں بڑی بلند اور نمایاں تھی۔ خالد بن ولید امیر کبیر تاجر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے شہزادوں جیسی زندگی گذاری تھی لیکن وہ جنگجو تھے اور نامور تیغ زن۔ عسکریت ان کے رگ و ریشے میں رچی بسی ہوئی تھی اور فن حرب و ضرب میں انہیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔
خالد پیدائشی سپہ سالار تھے۔ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا عہد کر رکھا تھا لیکن اہل قریش جس میدان اور معرکے میں مسلمانوں کے مقابل آئے منہ کی کھائی اور اگلے معرکے کی تیاری کرنے لگے۔ خالد نے اپنے قبیلے کی شکست خوردگی اور مسلمانوں کی عسکری ذہانت اور اہلیت اور ان کا نظم و نسق دیکھا تو اپنے قبیلے سے ان کا دل اچاٹ ہو گیا۔
خالد بن ولید کھوئے کھوئے سے رہنے لگے۔ عسکریت کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کے کردار میں کوئی ایسی نمایاں جھلک دیکھی جو انہیں اپنے قبیلے میں نظر نہیں آتی تھی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر تو خالد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے چل پڑے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بے خبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ ان ہی کی شرائط پر معاہدہ کر لیا جو خالد بن ولید کے لئے غیر متوقع تھا۔
خالد رضی اللہ عنہ تو پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے متاثر تھے۔ صلح حدیبیہ سے ایسے متاثر ہوئے کہ ایک روز کسی کو بتائے بغیر مکہ سے نکلے اور مدینہ کا رخ کرلیا۔ ان کے آگے ساڑھے تین سو کلو میٹر انتہائی دشوار مسافت تھی۔ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کر کے اسلام قبول کرنے جارہے تھے۔
راستے میں انہیں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مل گئے اور خالد رضی اللہ عنہ انہیں وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔
★★★★
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی حیرت اس پر نہیں تھی کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ انہیں آبادیوں سے بہت دور اس ویرانے میں مل گئے تھے بلکہ وہ حیران اس پر ہوئے تھے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ عرصہ دو سال سے حبشہ (افریقہ) چلے گئے تھے۔ اگر عمر بن عاص رضی اللہ عنہ انہیں مکہ میں ملتے تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ حیران نہ ہوتے۔
" پہلے تو یہ بتا اے ابن عاص!" خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے پوچھا۔ یہاں کیا کر رہا ہے؟ کیا تو حبشہ نجاشی کے پاس نہیں چلا گیا تھا؟
”ہاں ابن ولید! - عمرو بن عاص نے کہا - میں حبشہ ہی چلا گیا تھا لیکن تجارت کے لئے نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے وہاں گیا تھا۔ اچانک واپسی ہوگئی اور یوں سمجھ لے کہ بھٹکتا ہوا یہاں آن پہنچا ہوں۔ تو مل گیا ہے تو شاید کوئی راستہ دکھادے۔ میں تو سوچ سوچ کر تھک گیا ہوں“۔
"پہلے اپنی وہ سوچ تو بتا" - خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا۔ ”اگر تُو سوچوں میں بھٹک سکتا ہے اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا پھر مکہ کے قریش تو اندھیروں میں گم ہو جائیں گے"۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ تاریخ اسلام کا ایک فکر انگیز باب ہے۔ ان کا جواب سننے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ عمرو بن عاص اصل کون تھے کیا تھے اور ان کا خاندانی پس منظر کیا تھا.... قریش بت پرست تھے اور انہوں نے بتوں کے کچھ نام رکھے ہوئے تھے۔ یہ ان کے دیوتا تھے۔ ان دیوتاؤں کا ایک خاص اوقاف تھا اور اس اوقاف کا نگران بنوسہم تھا۔ اوقاف کے تمام تر انتظامات اور مالی معاملات بھی بنوسہم کی ذمہ داری میں تھے۔ اس وجہ سے عمرو بن عاص کے والد عاص بن وائل ہی کو قریش میں خاصا اونچا اور قابل تعظیم مقام حاصل تھا۔ قبیلے پر ان کے فیصلے اور حکم چلتے تھے اور ان کی تعمیل ہوتی تھی۔ خالد بن ولید کے خاندان کی طرح عمرو بن عاص کا خاندان بھی دولت مند تھا۔ دولت مندی کازریعہ تجارت تھا۔
عمرو بن عاص کے والد اتنے صاحب اقتدار تھے کہ حضرت عمر بن خطاب کے قبول اسلام سے پہلے ان کے قبیلے بنو عدی کو بنو عبدالشمس نے ان کے گھروں سے جو صفاء کے قریب تھے نکال دیا تو بنو سہم نے انہیں اپنے ہاں پناہ دی تھی۔ پھر حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو اسی بنوسہم نے انہیں قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اس پر خطر صورت حال میں عمرو بن عاص کے والد عاص بن وائل میں نے انہیں اپنی حفاظت میں رکھا۔
عاص بن وائل اتنے دولت مند تھے کہ ریشم کا لباس پہنتے تھے۔ عمرو بن عاص پر اس دولتمندی کا اور اپنے خاندان کی حیثیت کا بہت زیادہ اثر تھا۔ ایک اثر تو یہ تھا کہ وہ عزتِ نفس کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے اور دوسرا اثر یہ کہ اقتدار پسندی میں کسی اور کو اپنے آگے یا اپنے اوپر برداشت نہیں کرتے تھے۔
عمرو بن عاص بھی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرح اور قریش کے ہر سردار کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن تھے اور آپ کے قتل کے درپے رہتے تھے لیکن عمروبن عاص نے یہ بھی دیکھا کہ قریش کسی بھی معرکے میں مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے۔ عمرو بن العاص مسلمانوں کے خلاف غزوہ احزاب میں شامل تھے۔ وہ خالد بن ولید کی طرح جنگی شہشوار اور شمشیرزن تھے۔ انہوں نے اپنی بے جگری اور بہادری کے جوہر دکھائے جم کر لڑے لیکن اس معرکے کا انجام بھی وہی ہوا جو وہ پہلے دیکھتے آرہے تھے۔ قریش حوصلہ ہار بیٹھے اور بری طرح میدان چھوڑ گئے۔
مشہور یورپی مورخ ایلفرڈ بٹلر نے یہ واقعہ بیان کیا ہے جس کی تائید ایک مستند مسلمان تاریخ نویں ابن عبد الحکم نے کی ہے۔ یہ واقعہ سنانے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ تمام مسلم اور غیر مسلم مؤرخوں نے عمرو بن عاص کے متعلق لکھا ہے کہ وہ جس قدر بہادر تھے اور سواری اور شمشیر زنی میں جتنی شہرت رکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ ذہانت و فطانت؛ وقار و تمکنت، دانائی اور زبان آوری اور سخن فہمی میں خاص مقام رکھتے تھے۔ زور استدلال ایسا کہ ان کے سامنے کوئی اور اپنی دلیل بازی کی جرآت نہیں کرتا تھا۔ وہ حقیقت اور خوش فہمی کے فرق کو نہایت اچھی طرح سمجھتے تھے اور مکمل طور پر حقیقت میں تھے۔ غزوہ احزاب میں قریش کی شکست دیکھ کر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے قبیلہ قریش کے چند آدمیوں کو اپنے ہاں بلایا۔
اے اہل قریش! ___ عمرو بن عاص نے کہا___ "خدا کی قسم، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں ہم سب خوش فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ کسی ایک بھی معرکے میں ہم ان کے مقابلے میں نہیں جم سکے۔ کیوں نہیں ہم لوگ تسلیم کرلیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاستارہ عروج پر پہنچ رہا ہے۔ وہ وقت تیزی سے چلا آرہا ہے جب مسلمان ہم پر غالب آجائیں گے۔
ہم تمہیں دانشمند سمجھتے ہیں؟ - ایک آدمی نے کہا___ جو تونے کہا ہے وہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ تو ہم سب میں عقل و دانش زیادہ رکھتا ہے۔ یہ بتا تو چاہتا کیا ہے اور ہم کیا کریں۔
تم سب میرے دوست ہو عمرو بن عاص نے کہا ”میں جو چاہتا ہوں وہ اور کوئی نہیں مانے گا، تم سب میرے دوست ہو مجھے اپنی اور تمہاری عزت کا خیال ہے۔ میرے سامنے ایک ہی راستہ ہے۔ تم میں سے جو میرا ساتھ دینا چاہے وہ میرے ساتھ حبشہ چلا چلے اور ہم حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی پناہ میں رہیں گے"۔
کب تک وہاں پڑے رہیں گے؟ __ایک نے پوچھا__ ”وہاں کریں گے کیا؟"
"تجارت" - عمرو بن عاص نے جواب دیا ”تجارت نہ ہو سکی تو نجاشی ہمارے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش پیدا کر دے گا۔ اگر مسلمان قریش پر غالب آگئے تو میں مسلمانوں کی غلامی سے نجاشی کے زیر سایہ رہنا بہتر سمجھتا ہوں۔ اگر قریش مسلمانوں پر غالب آگئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نیا مذہب ختم ہو جائے گا اور ہم لوگ واپس آجائیں گے۔
0 تبصرے