👈 مرد بھی بکتے ہیں جہیز کے لیے 👏

دور رواں نفسہ نفسی کا دور ہے ، ہمارے معاشرے میں لاتعداد مسائل نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رکھا ہے۔ ان مسائل میں ایک اہم اور بڑا مسئلہ جہیز بھی ہے جو موجودہ دور میں وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔
عام طور پر سلیقہ مند ، پڑھی لکھی، خوب رو اور خوب سیرت لڑکیاں بھی قیمتی جہیز نہ ہونے کے باعث آنکھوں میں دلہن بننے کے خواب بسائے ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر گزار دیتی ہیں ۔ اور پھر ایک خاص عمر کے بعد تو یہ سہانا خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیتی ہیں۔
اور اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کر کے بقایا زندگی اک جبر مسلسل کی طرح کاٹنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔
دلہن بننا ہر لڑکی کا خواب ہی نہیں اسکا حق بھی ہے، لیکن افسوس اسے اس حق سے محض غربت کے باعث محروم کر دیا جاتا ہے۔
سرمایہ داروں کے اس دور میں‌ لڑکیوں کو بھی سرمایہ سمجھا جاتا ہے، اور اس سرمایہ کاری کے بدلے انکے گھر والے خصوصاً مائیں بہنیں اور زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے سرگرداں رہتی ہیں۔
وہ لڑکی کا رشتہ لینے جاتی ہیں یا یوں کہیں اپنے بیٹے، بھائی کا کاروبار کرنے نکلتی ہیں لڑکی سے زیادہ اس کی امارات دیکھتی ہیں،
لڑکی والوں کے ہاں جاکر انکا ذہنی کیلکولیٹر بڑی تیزی سے حساب کتاب مکمل کرلیتا ہے اور وہاں‌ سے کچھ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں وہ پوری طرح سے آگاہ ہوجاتی ہیں۔
گاڑی، کوٹھی اور دیگر قیمتی سازو سامان تو ان کی فہرست میں‌ لازمی مضامین کی طرح شامل ہوتے ہیں۔
ان کے بعد کہیں جاکر لڑکی کی باقی خوبیوں (جن میں اسکا خوش شکل ہونا بھی شامل ہے) کو پرکھا جاتا ہے چنانچہ جس خوش قسمت لڑکی کے پاس دینے کو قیمتی اور‌ ڈھیر سارا جہیز ہو نیز خوبصورت بھی ہو وہ تو بیاہی جاتی ہے، اور جن بدقسمت لڑکیوں کے پاس یہ سب کچھ موجود نہیں ہوتا وہ سوائے اپنی تقدیر سے گلہ کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔
ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق و مذہبی ہیں اور اٹھتے بیٹھتے آیات قرآنی اور ‌احادیث نبویﷺ بیان کرتے نہیں تھکتے، لیکن معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا ہو تو ساری آیتیں ، حدیثیں بھلا کر اس کے دام وصول کرنے لگتے ہیں۔

●● کوئی تو ملے جو کہے، ہاں میں خود دار نہیں ●●

آج تک بےشمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ ”ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی۔“
جتنے ملے سب شرفاء ملے،،،
ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ
”الحمدلله" ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔“
جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟
جب وہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟
پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :
”ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے ۔
جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے ۔۔۔ وہ بھی خوشی سے۔“

دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے،،،
جسے لوگ شرافت و خوداری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں...!! 😢😞😢

کاپی پیسٹ