اور نیل بہتا رہا۔ قسط نمبر 5
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مالدار باپ کے بیٹے تھے اور تجارت بھی وسیع پیمانے کی تھی اس لئے سیروسیاحت کا ذوق و شوق بھی تھا۔ وہ جہاں چاہتے بڑے آرام سے جاسکتے تھے۔ اسکی پیشکش قبول کرنے میں وہ اس لئے پس و پیش کر رہے تھے کہ وہ احسان کا صلہ نہیں لینا چاہتے تھے۔ ویسے اس کی یہ پیشکش عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خواہش کے عین مطابق تھی۔ انہوں نے اسکندریہ کی بہت شہرت سنی تھی اور کئی بار انہیں اسکندریہ جانے کا خیال آیا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ آج کیا واقعہ ہوا ہے اور یہ شخص انہیں کیا صلہ دے رہا ہے۔
اپنے ساتھیوں کی اس جماعت کے وہ سربراہ تھے۔ ساتھی انہیں روک نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس عیسائی کی پیشکش قبول کر لیں اور اس کے ساتھ چلے جائیں۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنی پسند اور مرضی کا ایک ساتھی اپنے ساتھ تیار کر لیا اور اگلے روز وہاں گئے جہاں شماس ٹھہرا ہوا تھا۔ اسے بتایا کہ وہ اس کے ساتھ اسکندریہ جائیں گے۔ انہوں نے روانگی کا دن اور وقت طے کر لیا۔
اس دور میں نہر سویز نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے خشکی سے بھی مصر جایا جاسکتا تھا اور اسکندریہ تک جانے کے لئے بحری راستہ بھی تھا۔ یہ بتاتاممکن نہیں کہ یہ لوگ خشکی کے راستے گئے یا سمندر کے راستے، تاریخ نے اتنا ہی لکھا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ اس کی ہمراہی میں اسکندریہ پہنچ گئے۔ بیت المقدس سے اسکندریہ کا فاصلہ پانچ سو کلو میٹر ہے۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب اسکندریہ شہر کی شان و شوکت اور حسن و جمال دیکھا تو وہ حیران رہ گئے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ انہوں نے بے ساخته کہا شماس! میں نے ایسا شهر اور اتنی دولت کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی جس کی ریل پیل یہاں دیکھ رہا ہوں۔
مؤرخین نے ایک واقعہ لکھا ہے جو دلچسپ بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔ واقعہ یوں ہے کہ ان ہی دنوں اسکندریہ میں ایک جشن منایا جارہا تھا۔ تاریخ میں یہ پتہ نہیں ملتا کہ یہ کیا جشن تھا جس میں صرف شہر کے لوگ بھی شامل نہیں تھے بلکہ شاہی خاندان بھی اس میں شامل تھا اور امراء و وزراء اور حاکم بھی اس میں شریک تھے۔ شہسواری تیراندازی، تیغ زنی اور کُشتیوں کے مقابلے بھی ہو رہے تھے۔ لوگوں نے بڑے ہی قیمتی کپڑے پہن رکھے تھے۔
شماس عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بھی اس جشن میں لے گیا۔ اس نے عمرو بن عاص کے لئے ریشمی لباس تیار کروا کے انہیں پہنایا تھا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ شاہی افراد اور حکام بالا میں اس کو خصوصی پذیرائی حاصل تھی۔ اس روز اس جشن کی ایک خاص تقریب منائی جارہی تھی۔
لوگ ایک دائرے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ شاہی افراد کے لئے آگے بیٹھنے کے لئے جگہ بنائی گئی تھی۔ لوگوں کے ہجوم کے درمیان جو جگہ خالی تھی وہاں ایک آدمی کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں ایک سنہری گیند تھی۔ وہ بار بار گیند کو پوری طاقت سے اوپر کو پھینکتا تھا اور گیند اوپر جا کر زمین پر گرتی تھی۔
اس نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ جب کبھی یہ جشن منایا جاتا ہے اس میں یہ تقریب ضرور منعقد ہوتی ہے۔ ایک آدمی آنکھیں بند کر کے گیند اوپر پھینکتا ہے اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ گیند جس شخص کے ایک بازو پر گرے وہ شخص بادشاہ بنے بغیر مر نہیں سکتا۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ گیند زیادہ تر زمین پر گرتی تھی اور اگر کسی آدمی پر گری تو اس کے بازو پر نہ گری سرپر یا کندھے یا پیٹھ پر گری۔ شماس چونکہ صاحبِ حیثیت اور رتبے والا آدمی تھا اس لئے اسے آگے بیٹھنے کو جگہ ملی اور وہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو بھی آگے لے گیا۔
گیند پھینکنے والے نے ایک بار پھر گیند اوپر کو پھینکی تو گیند عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے دائیں بازو پر آ پڑی اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے گیند کو وہیں پکڑ لیا۔ شاہی خاندان کے افراد اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ اس شخص کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے تھے جس کے بازوؤں پر گیند گری تھی۔
شماس نے اٹھ کر اعلان کیا کہ اس شخص کا نام عمرو بن عاص ہے اور یہ مکے سے یہاں آیا ہے۔ تماشائیوں میں کئی لوگ قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے اور کسی کی بڑی بلند آواز آئی یہ سب غلط ہے۔ عرب کا یہ بدُّو ہمارا بادشاہ نہیں ہو سکتا۔
ہجوم میں سے کئی آوازیں انہیں نہیں... ہرگز نہیں... یہ چھوٹا ناٹا سا بدُّو مصر کا بادشاہ کیسے ہو سکتا ہے!"
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ عرب کے عام لوگوں کی طرح دراز قد نہیں تھے۔ ان کا قد چھوٹا، سر بڑا، ہاتھ اور پاؤں کچھ زیادہ ہی بڑے تھے۔ ان کی بھویں گھنی تھیں، منہ بھی کچھ زیادہ چوڑا تھا، داڑھی بھی رکھتے تھے، سینہ تو خاص طور پر چوڑا تھا۔ یہ کسی دلکش آدمی کی تصویر نہیں بنتی لیکن ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں میں اور چہرے پر بشاشت اور زندہ دلی کا تاثر رہتا تھا۔ غصے والی بات پر بھی انہیں غصہ نہیں آتا تھا۔
ان کا یہ جسم دیکھ کر اسکندریہ والوں نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ شخص ان کا بادشاہ نہیں ہو سکتا۔
اللہ کے بھید کوئی نہیں پا سکتا۔ کوئی بھی نہ سمجھ سکا خود عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی نہ سمجھ سکے کہ یہ اللہ تبارک و تعالی کا ایک اشارہ ہے جو کچھ ہی عرصہ بعد عملی شکل میں سامنے آ جائے گا اور آج جو لوگ اور شاہی خاندان کے جو افراد اس عربی بدُّو کا مذاق اڑا رہے ہیں یہ انقلاب بھی دیکھیں گے کہ یہی عربی بدو مصر کے بادشاہوں کا تختہ الٹ دے گا اور فاتح مصر کہلائے گا اور ان ہی لوگوں پر اس کا حکم چلے گا۔
گیند کی رسم ادا ہو چکی تھی اور گیند نے ان کے عقیدے کے مطابق فیصلہ دے دیا تھا لیکن تماشائیوں کا ہجوم اور خصوصا شاہی خاندان کے افراد اور حکام اس فیصلے کو منظور نہیں کر رہے تھے۔ اس رسم کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جس پر گیند گری ہو اسے اسی وقت بادشاہ بنا دیا جاتا تھا بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ آنے والے وقت میں بادشاہ بن سکتا ہے لیکن ہجوم نے ہنگامہ بپا کر رکھا تھا۔
شماس نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا بازو پکڑا اور انہیں وہاں سے اٹھا کر اپنے ساتھ لے آیا اور گھر لے گیا۔ دو تین دن اور انہیں اسکندریہ کی سیر کروائی اور پھر بوقت رخصت دو ہزار دینار پیش کئے جو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کچھ پس و پیش کے بعد لے لئے۔ اس نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کے ساتھ اپنا ایک آدمی روانہ کیا اور اسے کہا کہ انہیں بیت المقدس چھوڑ کر واپس آجائے۔
ابن عبد الحكم لکھتا ہے کہ عمرو بن عاص مصر سے تو آگئے لیکن مصر اور اسکندریہ ان کے دماغ پر ایسا سوار ہوا کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مصر میں ہی جا کر آباد ہونا چاہتے ہیں۔
****
چونکہ یہ باب اس داستان کا تعارفی باب ہے اس لئے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور جنگی فہم و فراست کی ایک دو جھلکیاں دیکھ لی جائیں... یہ تو بیان ہو چکا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اسلام کس طرح قبول کیا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر کس طرح اعتماد کیا اور انہیں جنگی امور میں اعلی رتبہ دیا تھا۔ ہم آپ کو اس داستان کے اس دور میں تھوڑی سی دیر کے لئے لے جاتے ہیں جب ابو عبيدہ، خالد بن ولید، شرجیلہ بن حسنہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم اجمعین نے شام سے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے تھے اور رومی پسپائی کی کیفیت میں داخل ہو چکے تھے۔
ہم کسی معرکے کو تفصیل سے بیان نہیں کریں گے ورنہ اصل داستان دھری ره جائے گی۔ رومیوں کا مشہور جرنیل تو ہرقل تھا لیکن ان کا ایک انتہائی چالاک‘ عیار اور مار جرنیل اطریون تھا۔ اس کی عسکری فہم و فراست اور میدان جنگ میں نظروں کی
گہرائی کا تو کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ وہ ہرقل کا ہم پلہ اور ہم رتبہ تھا لیکن اس کے مقابلے میں طفل مکتب لگتا تھا۔ تاریخ حیرت کا اظہار کرتی ہے کہ مسلمان سپہ سالاروں نے اطریون کو کسی طرح شکست دے دی تھی
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انتقال فرما چکے تھے۔ خلیفه اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے تھے اور اب خليفة المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے جوہر دیکھ چکے تھے اور ان کی خوبیوں سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔
فرمایا کرتے تھے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ خطرے مول لے لیا کرتے ہیں اور شجاعت میں دوسروں کو حیران کر دیتے ہیں لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں اور آگ میں بھی کود جاتے ہیں۔ جنگی مبصروں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ دشمن کو دھوکہ دینے کی پالیسی پر عمل کیا کرتے تھے اور ان میں شجاعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ دُوبَدُو معرکوں میں دشمن تو ان کے سامنے کبھی ٹھہر ہی نہیں سکتا تھا اور انہوں نے ایسی مثالیں پیش کر کے دکھائی تھیں۔
رومی فوجیں شام سے پسپا ہوئیں اور فلسطین میں مختلف مقامات پر پھیلا دی گئیں۔ یہ رومیوں کی ایک چال تھی جو انہوں نے مسلمانوں کی قلیل تعداد دیکھ کر چلی تھی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کا لشکر کی ایک مقام پر حملہ کرے گا تو یہ تمام بکھری ہوئی فوج اس طرح اکٹھی کر لی جائے گی کہ مسلمانوں کے اس تھوڑے سے لشکر کو ہر طرف سے گھیر لیا جائے گا۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ذمّے بیت المقدس کی فتح لگا دی گئی۔ ان کے مقابل رومیوں کا انتہائی چالاک جرنیل اطریون تھا۔ وہ اس وقت اپنی فوج اجنادین کے مقام پر لے جا رہا تھا۔ عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کی نفری اور جسمانی کیفیت دیکھی تو امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کمک بھیج دیں کیونکہ مقابلہ اطریون سے ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام ملتے ہی اچھی خاصی نفری کی کمک بھیج دی (اور تاریخ میں آیا ہے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بڑا دلچسپ جملہ کہا۔ انہوں نے فرمایا "ہم نے عرب کے اطریون کو روم کے اطریون سے ٹکرا دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ کیا سامنے آتا ہے"۔
حضرت عمر رضی اللہ اچھی طرح جانتے تھے کہ اطریون جنگی کیفیت میں لومڑی جیسی چالاکی اور عیاری کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا ہے کہ اپنے دشمن کو چکر دے کر بھگا دیتا ہے۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ کچھ ایسے ہی اوصاف عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ میں بھی تھے۔
***
امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی بھیجی ہوئی کمک فلسطين عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئی۔ عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے یوں نہ کیا کہ ساری کمک اپنے پاس رکھ لیتے۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اپنا لشکر تین چار حصوں میں بٹ گیا تھا اور کسے کمک کی زیادہ ضرورت تھی۔ انہوں نے دو مقامات پر آدھی کمک بھیج دی اور کچھ اپنے ساتھ رکھی لیکن جب آگے بڑھے تو دیکھا کہ اطریون نے اپنی فوج قلعہ بند کر لی ہے اور چاروں طرف گہری خندق کھود رکھی ہے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا کہ محاصرہ کیا تو بڑا ہی لمبا ہو جائے گا اور خندق کی وجہ سے یہ قلعہ سر کرنا اگر ناممکن نہیں تو بہت ہی دشوار ضرور ہو گا۔ طریقہ ایک ہی ہے کہ اطریون کو دھوکے میں لایا جائے۔
انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دو ایلچی اطریون کی طرف بھیجے جن کے لئے ہدایت یہ تھی کہ وہ اطریون کے ساتھ صلح کے معاہدے کی بات چیت کریں جو وہ یقیناً نہیں بنے گا لیکن اصل مقصد یہ ہے کہ قلعے کے اندر اچھی طرح دیکھیں کہ یہ قلعہ کس طرح
سر کیا جا سکتا ہے اور رومیوں کی فوج کی نفری کتنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا مقصد صلح نہیں تھا بلکہ جاسوسی تھا۔
دونوں ایلچی گئے اور بات چیت کر کے واپس آگئے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب ان سے اپنے ذہن کے مطابق پوچھنا شروع کیا کہ انہوں نے کیا فلاں چیز دیکھی تھی؟ یہ بات کی تھی؟ اطریون کے اس سوال کا کیا جواب دیا تھا اور تم لوگ دیکھ کر کیا آئے ہو؟ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ یہ دو ایلچی نکمّے ثابت ہوئے ہیں اور وہ اطریون سے مرعوب ہو کر آئے ہیں اور انہوں نے جاسوی پوری طرح کی ہی نہیں۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا کہ وہ خود ایلچی بن کے جائیں گے اور یہ ظاہر ہونے ہی نہ دیں گے کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے سپہ سالار وہی ہیں اور ان کا نام عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اطریون کو ذرا سا بھی خشک ہو گیا تو وہ پکڑ کر قتل کروادے گا یا کال کوٹھڑی میں پھینک دے گا۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بھیس بدلا اپنے سالاروں سے رائے لی اور ان کی رائے کے مطابق اپنے بہروپ میں کچھ تبدیلیاں کیں اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے۔
قلعے کے دروازے پر جا کر انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار نے انہیں پچی کے طور پر بھیجا ہے اور اطریون سے بات چیت کرنی ہے۔ اطریون کو اطلاع ملی تو اس
نے انہیں فوراََ بلا لیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اطریون کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور ایسی اداکاری کی جیسے وہ صرف ایلچی ہیں اور اپنے لشکر میں ان کا کوئی ایسا اونچا رتبہ اور عہده نہیں۔ اطریون نے انہیں اتنی ہی تعظیم دی جتنی ایک ایلچی کودی جایا کرتی تھی۔
صلح کے مذاکرات شروع ہوئے۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یہ تو سن رکھا تھا کہ اطریون بہت ہی چالاک آدمی ہے لیکن انہیں یہ اندازہ نہ تھا کہ وہ کس حد تک چالاک ہے اور اس کی نظریں کتنی گہرائی تک پہنچ جایا کرتی ہیں۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ آخر سپہ سالار تھے اور اپنے قبیلے میں بھی انہیں برتری حاصل تھی اور یہ برتری ان کی شخصیت کا بنیادی جزو تھا۔ انسان شعوری طور پر تو بہت کچھ کر سکتا ہے لیکن لاشعور پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں ہوتا۔ شاید باتیں کرتے کرتے عمرو بن عاص کے منہ سے کچھ ایسی بات نکل گئی ہوگی یا انہوں نے لب و لہجے میں کوئی ایسا تاثر پیدا کر دیا ہو گا کہ اطریون چونکا۔
"میری نظروں نے مجھے کبھی دھوکہ نہیں دیا اطریون نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میرا خیال ہے کہ میں کسی ایلچی سے نہیں بلکہ عرب کے سپہ سالار کے ساتھ بات کر رہا ہوں... کیا تم عمرو بن عاص نہیں ہو؟"
نہیں! - عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ”اگر میں عمرو بن عاص ہو تا تو اپنے اور جھوٹا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے پہ سالار عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اتنے نڈر اور بے خوف انسان ہیں کہ انہوں نے کبھی جھوٹ بولاہی نہیں"۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ اطریون ہنس پڑا جیسے وہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی بات مان گیا ہو اور انہیں ایلچی ہی سمجھ رہا ہو۔ جنگ کے بعد جنگی قیدیوں سے پتہ چلا تھا کہ اطریون نے عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کو صحیح پہچانا تھا اور انہیں دھو کہ یہ دیا تھا کہ اسے غلطی لگی ہے اور واقعی ایلچی ہے۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اس کے جواب سے مطمئن نہ ہوئے اور سوچنے لگے کہ یہاں سے کس طرح نکلا جائے۔ انہیں شک اس طرح ہوا کہ مذاکرات کے دوران اطریون کی بہانے باہر نکلا اور جلدی واپس آگیا اور مذاکرات شروع کر دیئے۔ اس کی اس حرکت سے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو پکا شک ہو گیا کہ ان کی خیر نہیں۔ بعد میں جو اصل بات کھلی تھی وہ یہ تھی کہ اطریون نے باہر جا کر اپنے ایک محافظ سے کہا تھا کہ وہ فلاں جگہ جا کر انتظار کرے اور یہ ایلچی جو اندر بیٹھا ہے واپس جارہا ہو تو پیچھے سے اس کی گردن پر ایساوار کرے کہ سر تن سے جدا ہو جائے۔ وہ محافظ اس جگہ چلا گیا تھا جو اس کام کے لئے موزوں تھی۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک طریقہ سوچ لیا۔ انہوں نے مذاکرات کا رنگ ہی بدل ڈالا اور یوں ظاہر کرنے لگے جیسے وہ رومیوں کی طاقت سے ڈرتے ہوں اور ان کی شرائط مان لیں گے۔ اس راستے کا اطربون پر خاطر خواہ اثر ہوا۔
اب میں آپ کو اپنی اصل حیثیت بتاتا ہوں - عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا - میں سپہ سالار عمرو بن عاص کا بھیجا ہوا ایلچی نہیں ہوں بلکہ ہم اپنے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خطاب کے بھیجے ہوئے دس مشیر ہیں اور ہمیں آپ کے ساتھ مل کی بات چیت کے لئے بھیجا گیا ہے اور ہمارے لئے حکم یہ ہے کہ قابل قبول شرائط مان لیں۔ ہم مدینہ سے سیدھے آپ تک پہنچے ہیں۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ان مذاکرات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ میں نے آپ کی شرائط مان لی ہیں۔ میرے باقی نوساتھی قلعے سے کچھ دور میرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان سب کو یہاں لے آوں گا اور آپ چاہیں تو میں جاکر انہیں بتاؤں گا کہ یہ بات ہوئی ہے اور پھر ہم میں فیصلہ کر کے آپ کو بتادیں گے۔ مجھے یہی توقع ہے کہ میرے ساتھی آپ کی شرائط مان لیں گے"۔
”یہ تو اور زیادہ اچھا ہے- اطریون نے کہا۔
بہتر ہے تم انہیں میں لے آؤ"۔
اطریون پھر کسی کام کے بہانے باہر نکلا اور ایک محافظ کو یہ حکم دیا کہ فلاں محافظ فلاں جگہ کھڑا ہوگا اسے کہہ دو کہ تمہیں جو پہلے کام بتایا تھاوہ اب نہیں کرنا اور واپس آجاؤ۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ وہاں سے اٹھے اور بخیر و خوبی قلعے سے نکل آئے پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اطریون شام تک انتظار کرتا رہا۔
”یہ علی سپہ سالار مجھے دھوکہ دے کر زندہ نکل گیا ہے“ اطریون نے کہا۔ میں نے اس سے بڑھ کر عیار آدی بھی نہیں دیکھا۔
اس کے بعد میدان میں بڑی ہی خونریز لڑائی ہوئی جس میں دونوں طرف کا بے پناہ جانی نقصان ہوا اور اطریون اپنی بچی کھچی فوج کو ساتھ لے کر بیت المقدس چلا گیا اور وہاں فوج کو قلعہ بند کر لیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور ایک دو اور سالاروں نے بیت المقدس کو محاصرے میں لے لیا۔ ..
ایک روز عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ اطریون کا ایلچی کوئی پیغام لایا ہے۔ انہوں نے اپنی کو فوراََ بلالیا اور پیغام لے کر پڑھا۔ اطریون نے لکھا تھا:
"تم میرے دوست ہو اور تمہاری قوم نے تمہیں وہی رتبہ دیا ہے جو میری قوم نے مجھے دے رکھا ہے۔ میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ تم نے اگر اجنادین ہم
سے لے لیا ہے تو اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہنا کہ تم فلسطین کا کوئی اور حصہ فتح کر لو گئے۔ تم فلسطین میں اب کوئی اور کامیابی حاصل نہیں کر سکتے۔ تمہارے لئے بہتر یہ ہے کہ میں سے واپس چلے جاؤ اور اپنے آپ کو تباہی سے بچالو۔ اگر تم نے میری بات نہ بانی تو تمہارا انجام ان ہی جیسا ہو گا جو بیت المقدس کو فتح کرنے آئے تھے اور پھر زنده واپس نہ جاسکے۔
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اطریون کے ایلچیی کے ہاتھ اس کے پیغام کا جواب بھیج دیا۔ انہوں نے جواب میں لکھا:
”میں فلسطین کا فاتح ہوں۔ میں تمہیں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے مشیروں کے ساتھ تبادلہ خیالات کر لو۔ ہو سکتا ہے وہ تمہیں تباہی سے بچانے کے لئے کوئی دانشمندانہ مشورہ دے سکیں"۔
اجنادین اور بیت المقدس کی فتح ایک الگ داستان ہے۔ یہاں ایک دلچسپ بات سامنے آتی ہے جو تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے.... مورخ طبری نے لکھا ہے کہ اطریون نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا پیغام پڑھا۔ ان کے یہ الفاظ پڑھ کر وہ ہنس پڑا کہ میں فلسطین کا فاتح ہوں۔
ابھی بیت المقدس فتح نہیں ہوا تھا۔ اطریون نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا یہ پیغام اپنے مصاحبوں اور مشیروں کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیت المقدس کا فاتح نہیں ہو سکتا۔ اس نے ایسے لہجے میں یہ بات کی کہ سننے والوں کو یہ خیال آیا کہ بیت المقدس ضرور فتح ہو گا لیکن فاتح عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نہیں ہوں گے۔ ان میں سے کسی نے اطریون سے پوچھا کہ اس نے ایسی بات کیوں کہی ہے۔
بیت المقدس کے فاتح کا نام عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ اطریون نے یہ عجیب بات کی - توریت میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کے فاتح کے نام میں صرف تین حروف ہوں گے۔ ... یہ تین حروف عمر ہو سکتے ہیں۔ پھر توریت میں عمر کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں جن میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ توریت میں صاف لکھا ہے کہ بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔
طبری لکھتا ہے کہ اطریون نے یہ بات حتم و یقین کے لہجے میں کہی اور اس کی اس مجلس پر سناٹا طاری ہو گیا۔ بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ اطریون بغیر لڑے بیت المقدس سے اپنی فوج نکال کر مصر کو بھاگ گیا۔
جاری.....................................
0 تبصرے