👨👦 بچوں کی تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں ۔۔!
🖋️از قلم: ابو ولی اللہ حنفی ۔
_شریعت نے جیسے والدین کے کچھ حقوق مقرر کئے ہیں کہ جن کا خیال رکھنا اور پورا کرنا اولاد پر واجب ہے، ویسے ہی والدین پر اولاد کے لئے کچھ حقوق بیان فرمائے ہیں جن کا اہتمام والدین پر فرض ہے اور ان میں کوتاہی یا سستی دراصل اولاد کے ساتھ خیانت کے زمرے میں آتی ہے۔
والدین چونکہ اولاد کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے بچوں کے حقوق کا تحفظ ہر لحاظ سے کرنا ہوگا ورنہ ناقص تربیت اور لا پروائی کی پاداش میں جہاں نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہو گا وہاں والدین پروردگار عالم کے حضور ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے،
ہمارے ہاں عام طور پر بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی نگہداشت میں جن کوتاہیوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔
1---- بے جا سختی:
بعض والدین اپنے بچوں پر بےجا سختی کرتے ہیں اور ان کو معمولی بات پر بھی سخت سزا یا شدید ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں جس کا نقصان یہ ہوتا ہےکہ بچوں کے تمام جذبات و احساسات مرجاتے ہیں۔
ان کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں اور گھر کو جیل خانہ تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایسے بچے والدین سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ بعض والدین تو اس قدر سخت مزاج ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
چند سال قبل سعودی عرب کے ایک عربی روزنامہ میں ایسے ہی والد کا ظالمانہ رویہ پڑھنے کو ملا۔ کسی سعودی نے نئی لینڈکروزر خریدی، چند دنوں کے بعد اپنی فیملی کو پکنک پر لے گیا۔ اس دوران اس کے سب سے چھوٹے بچے نے جس کی عمر بمشکل ساڑھے تین یا چار سال تھی، گاڑی کی سیٹ کو چھری سے پھاڑ ڈالا۔
باپ یہ دیکھ کر آگ بگولا ہوگیا اور بچے کو شدید مارا۔ پکنک کا پروگرام ختم کیا اور گھر آکر بچے کو چھت والے پنکھے کے ساتھ لٹکا دیا۔ اتنی سخت سزا دینے کے بعد بھی اس کا غصہ ختم نہیں ہوا اور اس نے کئی گھنٹوں تک بچے کو اسی حالت میں رکھا۔ ماں بے چاری منت سماجت کرتی رہی مگر اس بدبخت نے ایک نہ سنی۔ جب اس نے بچے کو اتارا تو اس کے دونوں بازو کام کرنا چھوڑ چکے تھے۔ بچے کو اسپتال لایا گیا۔
ڈاکٹر نے کہا بچے کے دونوں ہاتھ شل ہوچکے ہیں اور انہیں کاٹنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ عین اس وقت جب آپریشن تھیٹر میں بچے کا آپریشن ہو رہا تھا۔ باپ اسی پنکھے کے ساتھ رسی باندھ کر جھول گیا اور یوں ہنستا بستا گھر ماتم کدہ میں تبدیل ہوگیا۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے جو بڑوں کی عزت نہ کرے، چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں
2---- بچوں کو مناسب وقت نہ دینا:
آج کل اکثر والدین نے مادیت پرستی کو اس قدر اپنے دل و دماغ پر سوار کررکھا ہے کہ ان کے پاس اپنی اولاد کے لئے بھی وقت نہیں ہے اور دن رات اسی فکر میں سرگرداں ہیں کہ کس طرح دنیاوی اسباب و وسائل کا دائرہ کار وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔
ایسے والدین کے بچے احساس محرومی کے بوجھ تلے دفن ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو تپے ہوئے صحرا میں محسوس کرتے ہیں، جہاں دور دور تک کہیں سایہ نظر نہیں آتا۔
دنیا کمانا اور روزی کے اسباب اختیار کرنا ہر انسان کے لئے ضروری ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو بھی پس پشت ڈال دے۔
بقول شاعر..........
ہوئے اس قدر مہذب کہ کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں، مرے اسپتال جا کر
3---- اولاد میں فرق:
بعض والدین اپنی اولاد کے ساتھ یکساں سلوک کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ بڑے بچے کو چھوٹوں پر یا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ جس بچے کے ساتھ زیادہ شفقت اور پیار کا رویہ رکھا جائے اور دوسروں کی حق تلفی کرکے اسے اہمیت دی جائے گی، وہ ضدی، ہٹ دھرم اور خودسر بن جائے گا جب کہ بقیہ بچے احساس کمتری کاشکار ہو کر والدین کے خلاف سوچنے پر مجبور ہوں گے۔
کتب حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے۔
ایک آدمی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگا کہ میں نے اپنے (بڑے) بچے کو ایک غلام تحفہ میں دیا ہے۔ آپ اس کے گواہ بن جائیں۔
آپﷺ نے فرمایا کیا تیرے اور بھی بچے ہیں۔ اس نے عرض کی جی ہاں، آپﷺ نے فرمایا، کیا تو نے ان کو بھی اسی طرح کا تحفہ دیا ہے؟
عرض کرنے لگا نہیں۔
آپﷺ نے فرمایا، کیا تو چاہتا ہے کہ وہ سب تیری خدمت یکساں انداز میں کریں؟
عرض کرنے لگا جی ہاں، فرمایا پھر ان کو بھی ہدیہ دو اور ایسا نہ کرو اور فرمایا: کیا تو مجھے ظلم و جور پر گواہ بنانا چاہتا ہے،
4---- بڑوں سے بدتمیزی پر خوش ہونا:
بعض والدین اس قدر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اگر ان کا چھوٹا بچہ بڑوں کے ساتھ بدتمیزی، اونچی آواز یا ان سے بداخلاقی سے پیش آئے تو وہ بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کا بچہ انتہائی جرأت مند ہے اور بڑوں سے بات میں جھجک محسوس نہیں کرتا۔
یہ درحقیقت بہت بڑی غلطی ہے۔ بڑوں کی عزت کرنا اور ان سے شرم کرنا اچھی چیز ہے۔
حدیث شریف میں ایک واقعہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ایک نوجوان اپنے چھوٹے بھائی کو بعض باتوں میں شرمانے اور حیاء کرنے پر ملامت کر رہا تھا کہ آپﷺ نے فرمایا
’’اس کو چھوڑ دو، حیاء ایمان کا حصہ ہے‘‘
5----️ بچوں کو نوکروں اور خادماؤں کے سپرد کر دینا:
بعض والدین اپنے بچوں کو نوکروں، خادمائوں اور ڈرائیوروں کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان لوگوں کا تعاون حاصل کرنا بعض دفعہ مجبوری ہو سکتا ہے مگر بچوں کو اپنی محبت سے محروم کر دینا عقلمندی نہیں۔
جو حقیقی پیار، محبت، مودت، عاطفت اور شفقت ماں باپ کی آغوش میں اولاد کو مل سکتی ہے، وہ پرائے ہاتھوں میں کہاں ہے؟
والدین کو چاہئے کہ بچوں کا خود خیال رکھیں اور سخت مجبوری کے وقت ہی نوکروں اور خادماؤں سے مدد لیں۔
6---- بچوں کے سامنے استاد کو برا بھلا کہنا:
بعض والدین استاد کی ڈانٹ ڈپٹ کے ردعمل میں بچوں کے سامنے ہی استاد کو برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔
اس سے جہاں استاد کا وقار مجروح ہوتا ہے وہیں بچوں کے دل سے استاد کا خوف اور اس کا احترام ختم ہوجاتا ہے۔ اگر استاد نے کہیں پر بےجا سختی سے کام لیا ہو تو انھیں الگ بیٹھ کر سمجھائیں اور ان سے تنہائی میں تبادلہ خیال کریں۔ بچوں کے سامنے ایسا ہرگز نہ کریں۔
7---- بچوں کے سامنے لڑائی جھگڑا:
اگر والدین بچوں کے سامنے مسلسل لڑتے ہیں اور آئے روز ایک دوسرے سے کشیدگی پیدا کرتے ہیں تو بچے بھی چڑچڑے اور بداخلاق بن جاتے ہیں۔
8---- جدت پسندی:
آج کل ترقی، روشن خیالی اور جدت کے نام پر جو زہر نئی نسل کے ذہنوں میں اتارا جارہا ہے، اس کے خوفناک نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر حقیقت کا ادراک کرنے کے لئے تیار نہیں۔
آج اگر بچوں سے یہ سوال کیا جائے کہ اداکاروں، کھلاڑیوں، فن کاروں کے نام بتائیں تو جھٹ سے ایک لمبی فہرست تیار کردیں گے۔ ایک دفعہ دوران سفر ڈرائیور نے بس میں لگا ویڈیو آن کیا۔ ابھی انڈین فلم کا ٹریلر پردہ اسکرین پر ظاہر ہی ہوا تھا، پچھلی سیٹ پر بیٹھا والد اپنے ساڑھے تین سالہ بچے سے پوچھتا ہے کہ بیٹا جلدی سے بتاو کون سی فلم ہے؟
بچے نے جھٹ سے بتادیا۔
اس کے باپ کی زبان سے نکلا ’’شاباش‘.......... اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم کیسے مسلمان ہیں؟
ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق ایک عورت اپنے چار محرم رشتہ داروں کو اس لئے جہنم میں لے جانے کا سبب بنےگی کہ وہ مالک کائنات سے کہے گی کہ یہ دنیا داری کے معاملات میں مجھے ڈانٹتے اور غصے کا اظہار کرتے تھے مگر دینی امور سے اعراض پر کبھی بھی انہوں نے مجھے سرزنش نہیں کی اور وہ چار لوگ باپ، بیٹا، خاوند اور بھائی ہیں۔
9---- بچوں کے سامنے غیر شرعی افعال کرنا:
بعض والدین بچوں کے سامنے غیر شرعی افعال کا ارتکاب کرتے ہیں مثلا تمباکو نوشی، فلم بینی، سماع موسیقی اور گالی گلوچ اور اس کے باوجود بچوں کو ایسی باتوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں یہ تو ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کنویں میں دھکا دیں اور کہیں بیٹا دھیان رکھنا کہیں تمہارے کپڑے گیلے نہ ہوجائیں۔
10---- نماز کی پابندی نہ کروانا:
ایک حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسے نماز کی ترغیب دی جائے اور جب دس سال کا ہوجائے تو اگر پھر بھی نماز کا عادی نہ بنے تو اس پر سختی کی جائے اور یعنی اس کے والدین کو چاہئے کہ وہ اسے سختی کے ساتھ نماز کا پابند بنائیں کیونکہ یہ ان کی ذمہ داری ہے۔
الغرض بچے مالک کائنات کی انتہائی خوبصورت اور بہترین نعمت ہیں جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔
یہ بات تو ان سے پوچھی جائے جن کو اﷲ تعالیٰ نے اس نعمت عظمیٰ سے محروم رکھا ہے۔
اس نعمت کی قدر کرنا اور ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کرنا والدین کا فرض ہے۔
تمام والدین کو آپﷺ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہئے
’’تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے جس سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال کیاجائے گا۔
بادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے۔
اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
آدمی اپنے گھر کا ذمہ دار ہے۔
اس سے اس کے اہل وعیال کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اس سے سوال ہوگا اور خادم اپنے مالک کے مال و دولت کا ذمہ دار ہے اس سے اس کے متعلق سوال ہوگا‘‘ (بخاری شریف)
پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا
’’اے ایمان والو! اپنے آپ اور اپنے اہل عیال کو جہنم کی آگ سے بچائو۔ وہ آگ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
اس پر بڑے سخت فرشتے مقرر ہیں۔
وہ ﷲ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘ (التحریم:6)
یاد رہے اولاد کی صحیح تربیت والدین کے لئے صدقہ جاریہ اور ذخیرہ آخرت ہے۔
اللہ تبارک و تعالی ہم سبھی کو ان تمام باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین۔
0 تبصرے